کسی قوم کے لیے اظہار کا سب سے بہترین ذریعہ اْس کی مادری زبان ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں دانشور اپنی دھرتی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں اور ان کا تعلق اپنی مٹی کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے تو اس کی عوام اپنی ثقافت، اپنی زبان اور اپنی تاریخ پر فخر کرتی ہیں۔ تقسیم پاکستان کے بعد پاکستان جاگیرداروں اور بیوروکریٹس میں ایسا تقسیم ہو ا کہ ہماری مادری زبانیں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتیں، اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کے حوالے سے تمام اختیارات صوبوں کو منتقل ہو ئے ہیں ، تمام صوبے اپنے نصاب میں مادری زبان کو رائج کر سکتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں تو انگریزوں کے دور سے ہی سندھی زبان کو سکولوں میں پرائمری سطح پر رائج کر دیا گیا تھا۔ پاکستان میں سرائیکی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے، ان کی تعداد اب 8 کروڑ تک پہنچ چکی ہے، خطے میںسرائیکی اور پنجابی و دیگر زبانوں میں بچے کو ابتدائی تعلیم کی آج اشد ضرورت ہے ، اس کیلئے لسانی ماہرین کی ایک ایسی جماعت بنائی جائے جو تدوین نصاب کے ساتھ ساتھ ان تمام اصطلاحات کا بھی ترجمہ کرے جو ہمیشہ سے ایک مسئلہ آ رہا ہے اور جس کو چھیڑتے ہوئے اہل قلم بھی کتراتے ہیں کیونکہ اب ہر ذی عقل یہ سوچتا ہے کہ ہم کب تک تاج برطانیہ کی نو آبادی بنے رہیں گے اور کب اس انگریزی کے جا ل سے باہر آئیں گے؟۔ سرائیکی زبان کے عظیم شاعر حضرت خواجہ غلام فرید ؒنے تو آج سے کئی سو سال پہلے ہی فرما دیا تھا کہ اپنی نگری آپ وسا توں پٹ انگریزی تھانے (یعنی اپنے ملک کا نظام خود سنبھالو ، اپنی بولی، ثقافت اور اسلامی نظام کی ترویج کے لئے کام کرو اور انگریزی نظام کو ترک کردو)۔ 21 فروری کو پوری دنیا میں ماں بولی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اقوام عالم نے مادری زبان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے نہ صرف عالمی حیثیت دی ہے بلکہ مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت بھی تسلیم کی ہے۔ ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک بچے کی ذہنی نشوونما کمرہ جماعت میں صحیح طریقے سے پروان نہیں چڑھتی اس میں تخلیق کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی اور بچہ تخلیق اور تحقیق کو چھوڑ کر رٹا لگانا شروع کر دیتا ہے۔ تخلیقی صلاحیت کو بہترین طریقے سے پروان چڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ بچے کے لئے ایک ایسا ماحول بنایا جائے جس میں وہ اپنے دماغ کو سوچنے، سمجھنے، سوال کرنے اور جانچنے کے لئے زیادہ سے زیادہ استعمال کرے اور معلّم زیادہ سے زیادہ ان مثالوں کی مدد سے اس کو سکھائے جو اس کی اپنی زبان، ثقافت اور معاشرے سے لی گئی ہوں جس سے تمام بچے واقف ہوں۔ معاشرے اور انسانی ماحول کے ساتھ کسی بھی نومولود کا پہلا تعلق مادری زبان ہی جوڑتی ہے اور ماں کی گود سے لیکر گور تک اسی زبان کے ذریعے ہی بچہ اپنی زندگی کی منازل طے کرتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک تندرست بچہ سکول جانے سے پہلے تقریباً 3000 الفاظ سے واقفیت حاصل کر چکا ہوتا ہے اور اس کی نرسری تعلیم کا انتخاب اگر انہی تین ہزار الفاظ سے کیا جائے تو نہ صرف معلم کا عمل آسان ہو جائے گا بلکہ بچے کی تخلیقی صلاحیتیں بھی کھل کر سامنے آئیں گی۔ اس صورت حال کو مدّ نظر رکھتے ہوئے،ماہرین تعلیم کی تحقیق کی روشنی میں2001 ء میں یو این کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اپنی ایک قرارداد کے ذریعے مادری زبان میں تعلیم کو بچے کا بنیاد ی حق تسلیم کیا تھااور اس قرارداد پر حکومت پاکستان نے بھی دستخط کئے تھے۔ دنیا کے کئی ممالک نے مادری زبانوں کی ضرورت و اہمیت کو مانتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ ہر بچے کو اپنی مادری زبان میں تعلیم کا حق حاصل ہے اور تمام زبانوں کی بلا امتیاز ترویج و ترقی شہریوں کے بنیادی حقوق اور ریاستی فرائض کا حصہ ہے۔لیکن پاکستان میں آج بھی علاقائی زبانوں کی اہمیت اور مقام و مرتبے پر بحث جاری ہے۔ اگرچہ سندھ میں سندھی، خیبر پختونخوا میں پشتو اور بلوچستان میں بلوچی ابتدائی تعلیمی درجات میں پڑھائی جاتی ہے لیکن پنجاب میں سرائیکی اور پنجابی زبان کی ترویج و اشاعت کی سرکاری سطح پر کبھی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔جب ہم ملک کے تعلیمی اداروں کو غیر ملکی زبانوں کے بوجھ سے آزاد کرتے ہوئے اپنی زبانوں کو پاکستان کی قومی زبانیں مان کے ان میں تعلیم کا سلسلہ شروع کریں گے تو اس میں ملک میں تعلیم کی شرح بڑھے گی اور وفاق کے استحکام میں مدد بھی ملے گی اور خوبصورتی بھی پیدا ہوگی۔ آج ہم ایسے دوراہے پر کیوں کھڑے ہیں جہاں اپنی زبان کی بجائے کسی اور کی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کو فخر سمجھتے ہیں؟۔آج تو دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے جہاں ہر وہ چیز جو کل ہماری دسترس میں نہیں تھی اب ایک کِلک پر موجود ہے۔کسی بھی علم کو منٹوں میں ہی کسی دوسری زبان سے اپنی ہی زبان میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ پورے یورپ میں کوئی بھی ملک دوسرے کی زبان پڑھانے یا پڑھنے پر راضی نہیں ہے۔ ہر ملک کی اپنی زبان ہے حتیٰ کہ انگلینڈ اور امریکہ کے لوگ جہاں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان انگریزی ہے لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے کی انگریزی کو نہیں اپناتے، لیکن جو بھی ہو جیسا بھی ہو انگریزی زبان جاننا ہم نے فخر کا باعث بنا رکھا ہے۔ ایتھوپیا کی مثال لے لیں جہاں کے لوگوں کو ڈیڈ مین یعنی مرے ہوئے انسان کہا جاتا تھا، انہوں نے جب اجنبی زبانوں کوایک طرف رکھ کہ اپنے ملک کی سولہ سے زیادہ مادری زبانوں کو تعلیم کا ذریعہ بنایا تو کچھ ہی سال میں چائنا جیسا ترقی یافتہ ملک ایتھوپیا کے پاس گیا کہ ہمیں موقع دیں تاکہ ہم بھی ایتھوپیا میں سرمایہ کاری کرسکیں۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان کے حکمران دنیا کو یہ منّت و سماجت کرتے نظر آتے ہیں کہ آپ کی جو شرائط ہیں مان لیتے ہیںبس ہمارے ملک میں آ کر سرمایہ کاری کریں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم رکھنے میں کبھی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے۔